اس دوپہر امی نے کڑھی بنائی اور پکوڑوں کا مصالحہ بنا کر دیا ۔ جبکہ میں ان کو تلنا شروع کیا ، کیونکہ میں پکوڑے اور لُچ بہت اچھی تل لیتا ہوں ۔
کچھ دن ایسے ہی گزر گئے کچھ خاص نہیں ہوا ۔ میں کبھی کبھار گھر کے پچھلے لان میں ورزش کرتا تھا ۔ لیکن اکثر جیم ہی جاتا تھا ۔ پچھلے لان میں ویٹ ڈمر اور بینچ سپیشلی انہی کاموں کے لیے لگوایا تھا ۔ [/size]
امی کاموں سے فارغ ہوئی تو وہیں چلی آئیں ۔ پانی کی بوتل لیکر میرے پاس آئیں ۔ میں اس وقت پسینے میں شرابور تھا ۔ امی نے مجھے کہا ۔
مجھے بھی کچھ ایکسرسائز سکھا دو ۔ اپنی جان بناتے جا رہے ہو ۔
میں نے کہا مجھے تو آپ سے سیکھنے کی ضرورت ہے امی ۔
اور ان ہاتھ سے پانی کی بوتل لے لی ۔
چل بدمعاش جو بات کہو الٹا ہی جواب دینا ۔امی نے مصنوعی غصے سے کہا ۔
میری رانی میری امی ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آپ سے محبت ہی اتنی ہے ۔ دل کرتا ہے تنگ کرنے کو ۔ لیکن آپ کو برا لگتا ہے تو میں نہیں کیا کروں گا ۔
ارے باولے میں نے کب کہا ایسا ؟ امی نے حیرانگی سے پوچھا
میں نے انکی سوال کو ٹالتے ہوئے کہا چلیں پھر بازار چلتے ہیں ۔ آپ کا ٹریک سوٹ لیتے ہیں ۔
اس میں ورزش آسانی سے ہو جائے گی ۔
امی نے جواب دیا نہیں شلوار قمیض میں ہی ٹھیک ہے ۔
میں نے کہا امی شلوار قمیض میں بندہ ریلیکس ہوکر ورزش نہیں کر سکتا ۔ آپ کو پسند نا آیا تو مت لیجیے گا لیکن بازار تو چلیں گھومتے ہیں آج ۔ کیا خیال ہے ؟
امی : ہاں ٹھیک ہے چینی بھی ختم ہے ۔ میں نے اپنا سوٹ بھی لینا ہے گرمیوں کا
پھر ہم دونوں بازار کے لیے نکل پڑے ۔ امی نے کہا کار کو چھوڑو بائک ہی نکال لو ۔
میں دل ہی دل میں خوش ہو گیا اور بائک نکال لی ۔ امی بائک پر بیٹھیں تو میں نے پھر ڈائیلاگ بولا ۔ رادھا دھیان سے بیٹھنا گر نہ جانا ۔
امی نے میرے کندھے پر ہلکا سا تھپڑ مارا اور کہا چل بے شرم
خیر ہم بازار گھومے پھرے کچھ شاپنگ بھی کی ، امی کو ایک ٹراوزر اور کھلی سی ٹی شرٹ لیکر دی ۔
بازار گھومتے ہوئے میں نے کئی بار انکے کندھے پر ہاتھ بھی رکھا جیسے جگری دوست ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہیں ۔ اور کئی مزاق بھی کیے ۔ جن سے وہ کھل کھلا کر ہنستی رہیں ۔
مریو کے لیے بھی گڑیا لی اور اسکو سکول سے لیتے ہوئے گھر آگئے ۔ راستے میں احسان لوگوں کا کلینک تھا مطب حکیم نثار کے نام سے ۔ اس کے ابو کا نام نثار ہے جیسا میں بتا چکا ہوں وہ حکیم ہیں ۔
میں نے سامنے سے گزرتے ہوئے کہا اوہو مجھے تو دوائی لینی ہے ۔ ابھی یاد آیا ۔
امی کچھ نہیں بولیں ۔ ان کو گھر چھوڑ کر میں پھر آیا ۔ انکل نثار اور احسان کے پاس بیٹھا۔ انکل سے میں نے کہا کہ کوئی باڈی شاڈی بنانے والی دیسی دوائی نہیں ہے ؟
انکل نے کہا ایسی ادوایات تو نہیں ہوتی دیسی دواخانے میں البتہ طاقت کی ادویات ہوتی ہیں ۔
ویسے برخودار تمھرا جسم ماشاء اللہ بہت ہے اچھا ہے اور کیا چاہتے ہو ؟
میں نے کہا بس انکل مزید باڈی بنانی ہے ۔ چلیں وہ طاقت کی دوائی دے دیں جسم پر کچھ نا کچھ تو اثر کریں گی ۔ ؟ میں جان بوجھ کر معصوم بن رہا تھا ۔
انکل نے غور سے میری طرف دیکھا ۔ انکو سمجھ نہیں ارہی تھی کونسی طاقت والی دوائی پوچھ رہا ہے ۔ مردانہ طاقت یا جسمانی طاقت یا لن کی طاقت یا سیکس کی طاقت یعنی ٹائمنگ والی ۔
لیکن میرا موضوع باڈی بنانا تھا اس لیے انہوں نے مجھے طاقت کی دیسی دوائی دی ۔
دوائی لیکر پیسے دینا چاہے تو انہوں نے انکار کر دیا ۔ لیکن میں نے زبردستی دیے ۔ اور کہا انکل حساب کتاب کا میں بہت پکا ہوں ۔
فورا احسان بولا : جیا جیا ۔۔۔ پتا سب مینوں کتنا پکا حساب دا ایں ۔ مشکل سے پاس ہوتے ہو ۔
میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔ اوئے احسانیا ۔۔۔ مینو جو مرضی کہہ لے ۔ میری ریاضی تے انگل نا چکیں ۔
انکل ہماری گفتگو سن کر ہنس رہے تھے ۔ میں احسان کو لیکر باہر نکلا ۔ کچھ دیر گپ شپ کی اس نے بھی گلہ کیا کہ کتنے عرصے سے بیٹھک میں نہیں آئے ۔ نا گپ لگائی ۔
وہ بھی اپنی جگہ بالکل ٹھیک تھا روچی آپی کے پیچھے میں دنیا کو تو جیسے بھول چکا تھا ۔ لیکن اب زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا ۔
گھر آیا تو امی استری سٹینڈ پر کپڑے پریس کر رہیں تھیں ۔ پوچھنے لگ گئیں ۔کونسی میڈیسن لینی تھی ۔ اور میرے سامنے آو استری سٹینڈ کے سامنے تمھاری کلاس لیتی ہوں ۔
میں ان کے پا س ہی کھڑا رہا اور جان بوجھ کر کہا کیوں بتاوں میڈم جی ؟۔
امی : بتا نا زرا کونسی میڈیسن کی ضرورت پڑ گئی تجھے ؟
میں : بس ہے ایک ۔۔۔۔۔
امی : ہے ایک ؟ کس چیز کے لیے ؟ سیدھی طرح بتاتے ہو یا بتاوں تمھارے ابو کو ؟
میں : بتا دیں ان کو ۔ میرا کیا جاتا ہے ۔ وہ بھی تو لیتے ہیں حکیم صاحب سے
مجھے پتا تھا یہ سن کر امی کا دل زور سے دھڑکا ہوگا ۔
امی : انکی تو مجبوری ہے ۔ لیکن تمھیں کیا ہوا ہے ؟
میں : مجھے پیار ہو گیا ہے امی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی اب سمجھ چکی تھیں کہ میں مزاق کر رہا ہوں ۔
اچھا کس کے ساتھ ؟
گھسرے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔میں نے فورا جواب دیا
امی کی ہنسی چھوٹ گئی اور بولیں ۔
بدتمیز ۔ ۔۔۔۔ پڑھے لکھے ہو اور شوق نوابوں والے
میں : میں کی کراں رسکانہ بیگم پوری دنیا مینوں گھاس نئی پاندی چلو گھسرا ہی سہی ۔
میں ساتھ ساتھ امی کی موومنٹ دیکھ رہا تھا ۔ جب استری کو اپنے سے دور لے جاتی تھیں ہپس مکمل طور پر پیچھے کو نکل جاتی ۔
اوئے تیری ۔ جب یہ ٹیبل پر دوہری ہوتی ہیں تو سامنے سے ممے نظر آسکتے ہیں ۔
ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ امی نے استری کا بٹن بند کر دیا ۔
واٹ دا فک ۔۔۔۔ میں کیوں سامنے نہیں گیا حلانکہ انہوں نے کہا بھی تھا
اتنا حسین نظارہ میں نہیں دیکھ سکا جسکا مجھے بہت دکھ ہو رہا تھا ۔
امی میری آنکھوں میں دیکھا اور کہا تمھیں دماغ کی دوائی لینے کی ضرورت ہے ۔ اور ہلکی سی سمائل پاس کی ۔
میں اب کھسیانہ ہوکر ہنس کر رہ گیا ۔
اسی طرح امی نے دو تین بار مجھے چوٹیں پہنچائیں تھیں ۔ مثلا
رات کو کھانا چکے تو تو امی نے گلاس کا دودھ پکڑا ہو اتھا مجھے علم نہیں تھا ۔
میرا دھیان ٹی وی کی جانب تھا ۔
کامی دودھ پیو گے ؟
میں : ( بغیر دیکھے ) نہیں امی ۔
امی مڑنے لگیں تو میری نظر انکے گلاس پر پڑی جو انہوں نے اتنا اٹھا رکھا کہ بڑے بڑے مموں کے پاس تھا ۔
لیکن اب وہ مڑ چکی تھیں ۔
مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میرا دماغ آوٹ کیوں رہا ہے ۔
کھانا تو کھا چکے تھے تو میں نے کہا امی چائے کا کپ بنا دیں میں نے دوائی لینی ہے ۔
امی سنجیدگی سے کہنے لگیں کامی بیٹا خیال سے ۔ کوئی الٹی سیدھی دوائی نا لے لینا ۔
میں امی کے پاس انکے سامنے کھڑا ہو گیا اور انکے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا امی بے فکر رہیں ۔ ویسے بھی آپ ہیں ناں ؟ مجھ کوئی ڈر نہیں کسی چیز کا
امی کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی لیکن چہرہ بالکل نارمل تھا ۔ وہ ایک قسم سے لا جواب ہو چکی تھیں ۔
لیکن جیسا نپولین نے فرمایا ۔ میرے پاس گھر دولت و شہرت ہے تمھارے پاس کیا ہے ؟ میرے پا س ماں ہے ۔ نپولین بونا پارٹ
امی نے کہا : اب ہر بار ماں کو ہی تنگ کرنا ضروری ہے ؟
میں : تو ٹھیک ہے پھر کھسرا ہی سہی ۔
امی نے ہاتھوں کی انگلیوں سے میری ناک پکڑ لی ۔ اور میری نقل اتارتے ہوئے کہنے لگیں
اج تمھیں کھسرا بڑا یاد آرہا ہے ۔
لگتا ہے تم پر اب پابندیاں لگانا پڑیں گی ۔
میں : ہاں جی مظلوم اور معصوم جو ہوں ۔ جو مرضی کریں
اسی طرح دو دن مزید گزر گئے ۔ امی صبح صبح میرے کمرے میں آئیں اور اٹھانے لگیں ۔ اٹھو چلو ورزش کرتے ہیں ۔
اوئے تیری ماں کا ۔۔۔۔۔ جب میری نظر ان پر پڑی تو آنکھیں پھٹی کہ پھٹی رہ گئیں ۔
ٹی شرٹ میں بامشکل کندھے چھپے تھے اور بازو اتنے کھلے تھے کہ بازوں میں سے ان کی برا نظر آرہی تھی ۔ اور نیچے وہی ورزش کے لیے ٹائٹ سا ٹراوزر
اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر اور کمر کو گھما کر مجھ سے پوچھا : کیسی لگ رہی ہوں ؟
میں نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا بہت شاندار ۔
چلو تم تیار ہو جاو میں صفائیاں مکمل کر لوں ۔ مریو باہر نکلی ہے کھیلنے کے لیے ۔ ...
یہ کہتی ہوئی امی کمرے سے نکل رہی تھیں اور میں انکی ہپس دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔
تنگ ٹراوزر نے ان کے ہپس کی ایک ایک سائیڈ کو الگ الگ کر دیا تھا ۔
شرم ہی نہیں اتی ان لوگوں کو جوان لڑکا گھر میں ہے اسکی عزت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔
خیر تیزی سے اٹھا اور برش کیا ہاتھ منہ دھویا ۔
اگر میں نے ورزش کرنی ہوتی تو اصولی طور پر کچھ جاگنگ کرتا پہلے ۔
لیکن میں تو ٹرینگ دینے والا تھا اس لیے ایسے ہی ٹھیک تھا ۔
میں نے بھی ٹراوزر پہن لیا امی آدھے گھنٹے بعد میرے روم میں آئیں ۔ اور میرے سامنے کھڑی ہو گئیں ۔ اور پوچھا کیا کرنا ہے ؟
میں نے کہا جو میں کروں وہی کرتی جائیں ۔ میں دونوں بازو سر کے اوپر سے نیچے اپنی تھائی تک لاتا اور ساتھ اچھلتا ۔
امی نے بھی ایسے ہی کیا جونہی اچھلی تو ممے ترتیب کے ساتھ اوپر اور نیچے ۔
38 کے ممے جب اچھلتے ہیں تو سب کو پتا ہے کیا منظر ہوتا ہے ۔ پھر جھک کر ایک دو ورزشیں کی ۔ میں تو پاگل ہو رہا تھا ۔ لن میرے ٹراوزر اور انڈر وئیر میں بس پھٹنے ہی والا تھا ۔
میں کھڑے کھڑے پیچھے کو جھکا اور اپنے بازوں پر سارا وزن ڈال دیا ۔ میرا پیٹ ، لن اور وہ سارا حصہ اس وقت خلا میں اوپر کو نکالا ۔ کیونکہ میرا وزن میری ٹانگوں اور بازوں پر تھا ۔ جبکہ پیٹ وغیرہ اوپر ۔
امی کی نظر میرے پیٹ سے ہوتی ہوئی لن والے آیریا پر آئی ۔ تو وہاں بس جگہ اٹھی ہوئی تھی ۔ میں ان کا چہرہ صاف دیکھ سکتا تھا جس پر ناگواری سی تھی ۔
مجھے بھی غصہ تھا کہ پھر غلطی ہو گئی ۔
پھر امی کو زمین پر سیدھا لٹایا ۔ ان کی دونوں ٹانگیں ایسی اٹھائیں کہ پیٹ اور ہپس زمین سے نہ اٹھ سکیں ۔
اس لیے میں نے اپنے ایک ہاتھ سے ان کی دونوں ٹانگیں تھام رکھیں تھیں اور دوسرا ہاتھ ان کے پیٹ کر رکھ دیا ۔ مجھ سے کچھ ہی انچ دور بڑے بڑے ممے تھے ۔ جو کہ فل ٹائٹ تھے ۔ پہلے میں سمجھتا تھا شاید ٹائٹ براہ کی وجہ سے ۔ لیکن وہ حقیقت میں ٹائٹ تھے. امی نے مجھے کہا سائیڈ سے اٹھ کر ٹانگوں والی سائیڈ پر آجاو ۔
میں اتنا دل کش نظارہ کیسے چھوڑ سکتا تھا ۔ میں نے کہا نہیں امی میں یہیں ٹھیک ہوں اپکا پیٹ زمین سے نہین اٹھنے دینا ۔
امی کچھ نہ بولیں دو تین بار ایسا کرنے کے بعد جونہی امی نے ٹانگیں ہوا میں 90 ڈگری پر سیدھی کی تو وہ بجائے واپس زمین پر لانے کے اپنے سر کی جانب لے آئیں ۔ تین بار ایسا جھول دیا ۔
یہ کیا ماں یکی ہے میرے ساتھ ۔ پہلے بتانا چاہیے تھا کہ اگلی موو کیا ہوگی انکی ۔
کیونکہ جونہی انکی ٹانگیں انکے سر کے قریب آئیں انکی ہپ مکمل طور پر اٹھ چکی تھی اور میں بالکل ٹانگوں کی طرف ہوتا تو ایسا ہی لگتا یہ ٹانگیں میں نے ہی اٹھائیں ہیں ۔
لوڑے لگ گئے پھر غلطی ہو گئی ۔
لیکن اب انہوں نے ٹانگیں بالکل زمین کر ساتھ لمبی کر کے ٹکا دی تھیں ۔
میں نے غصے میں سر میں خارش کی امی نے بھی میری بے قراری محسوس کر لی تھی ۔
دیکھا میں نا کہتی تھی تم ابھی اناڑی ہو ۔ امی ویسے ہی ریلیکس پوزیشن میں لیٹی ہوئی تھیں ۔
میں نے باقائد ہاتھ جوڑ کر اور پھر کان پکڑ کہا ۔ مہارانی مجھے بھی اسسٹنٹ بنا لیں ۔
اور پھر دونوں ہنسنے لگے ۔
امی جب اٹھتیں یا کوئی ورزش کرتیں تو انکے ٹراوزر پر دباو پڑتا ۔ سلائیں ادھڑیں تو نہیں البتہ کھچی ضرور لگ رہی تھی ۔
امی اب زمین پر ہی گوٹھ مار کے بیٹھ چکی تھیں ۔ اور اپنے گھٹنوں کی طرف دیکھتے ہوئے شکوے والے انداز میں کہنے لگیں اسکا تو کام ہو گیا ۔ اس لیے منع کیا تھا کہ آوٹ فٹ کھلا کھلا ہونا چاہیے ۔
میں نے کہا " میاں صاب جان دیو ، ساڈی واری آن دیو ۔ ورزش میں عموما فٹ لباس ہی پہنا جاتا ہے ۔
امی مسکراتے ہوئے کہنے لگیں پہلے لوگ تو دھوتیوں میں بھی ورزش کر لیتے تھے ۔ اتنے نخرے نہیں تھے ۔
میں نے فورا کہہ دیا چلیں کل سے دھوتی پہن کر لیں گے ورزش ۔
امی اب باقائدہ اونچی اونچی ہنسنے لگیں ۔ پاگل کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا ؟
میں : یہی کہ رسکانہ ( رخسانہ ) اور کامی دھوتی میں تھے ۔
امی کھل کھلا کر ہنسنے لگیں ۔ چلیں کل کی کل دیکھی جائے گی ۔
امی اور میں تیزی سے منازل طے کر رہے تھے ۔ بالکہ سچ پوچھیں تو ایک دوسرے کی بھوک بڑھا رہے تھے تڑپا رہے تھے ۔
امی مجھ پر بڑی حد تک اعتماد کرنے لگیں تھیں ۔ اعتماد تو پہلے ہی تھا لیکن ایک ساتھی کے طور پر دیکھنے لگی تھیں ۔
گلے لگانا چھونا وغیرہ تو عام ہو چکا تھا ۔ سچ پوچھیں تو امی بھی مجھ پر واری واری تھیں ۔ مجھے کئی بار مموں کا دیدار کروایا ۔ اور میرے لن کو بھی تاڑا ۔ لیکن پھر بھی حد بارحال قائم تھی ۔ شاید وہ بھی حد فیصلہ نہیں کر پا رہیں تھی کہ حد پار کرنی ہے یا نہیں ۔ اگر کرنی ہے تو کیسے ؟ کامی کیا سوچے گا ۔
میں نے کئی بار نوٹ کیا امی میرے قریب آتے آتے دور ہو جاتیں ۔ اس میں کچھ عمل دخل میرے رد عمل کا تھا ۔ میں جیسا رد عمل دینا چاہیے تھا میں نہیں دے پاتا ۔ آدھی سے زیادہ وارتیں تو میرے سمجھ سے اوپر ہوتیں ۔ وقت گزر جاتا تو پتا چلتا امی کا مقصد یہ تھا ۔
مثلا ہمارے لان سے ایک چھوٹی سے نالی گھر سے باہر جاتی ہے ۔تاکہ لان میں اگر پانی زیادہ ہو جائے تو اس نالی سے باہر نکل جائے ۔ اس میں باونڈر وال کے بالکل نیچے کوئی چیز پھنسی ہوئی تھی ۔ میں ایک تیلے کے ساتھ اس کو کھول رہا تھا ۔ امی پاس کھڑی تھیں ۔ اور بولیں ۔ کوئی بڑی چیز لاو اور اس کے اندر ڈالو ۔
یہاں مجھے بات آگے بڑھانا چاہیے تھی ۔ لیکن میرا دھیان اس وقت طوطے پر تھا جو ہماری باونڈری وال پر بیٹھا تھا ۔
لیکن کچھ باتوں کو سمجھ جاتا اور کافی کافی دیر ہم زو معنی گفتگو کرتے رہتے ۔
ایک شام کو کھانے پینے سے فارغ ہوکر ہم ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔ جس صوفے پر میں دراز تھا اس پر امی ٹانگیں نیچے لٹکائے بیٹھی ہوئی تھیں ۔ امی میرے پاوں کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا ۔ میرا زہن اٹکا تھا کہ امی کے ساتھ بیٹھ کر رومانٹیک فلم دیکھنا کیسا محسوس ہوتا ہے ۔ فلم بھی اخیر رومینٹک تھی ۔ اور خاص بات جو تھی وہ یہ تھی کہ فلم کی ہیروئن بڑی عمر کی تھی اور ہیرو ابھی ٹین ایجر تھا ۔ وہ خاتون اس کو بچوں کی طرح ٹریٹ کر رہی تھی اور ایک ایک چیز سکھا رہی تھی ۔ حتاکہ کسنگ بھی اور جب وہ بچہ اس خاتون پر چڑھ گیا تو اس خاتون نے اسکی کمر کو اپنے طرف دباتے ہوئے انگلش میں ہی کہا " ناو پش ان سائیڈ ۔ now push inside ۔" میرا دل باغ باغ ہو گیا اور میں نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ فلم ہی دیکھ رہیں تھیں ۔
اسی لمحے جب میں نے غور کیا تھا میرے پاوں کی ایڑھی ان کی گود میں دونوں رانوں کے گیپ میں تھی ۔ میں نے پاوں کا پنچہ بامی کے گھٹنوں کی طرف کر دیا جس سے پاوں کی ایڑھی امی کی پھدی کی طرف ہو گئی ۔
اب میں امی کا ری ایکشن دیکھنا چاہتا تھا ۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ امی نے اپنی رانوں کو تھوڑا سا کھولا اور میرے پاوں کی ایڑھی مزید نیچے کی طرف ہو گئی ۔
ہم دونوں کی نظریں ٹی وی پر ہی تھیں لیکن ہم اپنی ایک فلم ڈال رہے تھے ۔
میں نے بھی ایڑھی کو مزید امی کی پھدی کی طرف کیا اور مزید گہرا کیا ۔
امی نے صوفے سے ٹیک لی اور اس دوران ان کی ٹانگیں مزید کھلیں اور پھدی اوپر کو اٹھی ۔
اب میری ایڑھی پر نوکلیے بال چبھے ۔میں سمجھ گیا تھا کہ امی نے 5 یا 7 دن پہلے شیوکی ہوگی اس لیے کچھ کچھ بال تھے ۔
اس سے زیادہ کیا کر سکتا تھا ؟ پھر فلم میں وقفہ آیا تو امی نے کہا چائے بنا لاوں ؟ ۔
میں نے انکار کیا تو امی کے چہرے پر ایک ناگواری کی پرچھائی آئی سیکنڈ کے کچھ حصے میں ۔ میں نے فورا کہا ہاں ہاں بنا لائیں ۔ ..
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی انہوں نے کیا سوچا ۔
خیر میں باتھ روم گیا اور پھر واپس آکر ویسے ہی لیٹ گیا ۔ امی بھی 5 منٹ بعد چائے بنا لائیں ۔
میں نے ٹانگ جان بوجھ کر پیچھے کی تا کہ وہ ریلیکس ہوکر بیٹھ جائیں ۔
میں نے چائے صوفے کے پاس ہی نیچے فرش پر رکھی امی بالکل پہلے والی پوزیشن پر بیٹھ گئیں ۔
جونہی بیٹھیں تو اپنی قمیض کے اگلے پلو سے اپنا چہرہ صاف کیا ۔ ابھی انکا پلو انکے چہرے پر ہی تھا کہ میں نے پھر پاوں ان کی گود میں رکھ دیا مجھے 1000 واٹ کا جھٹکا لگا ۔ انہوں نے چائے بنانے کے دوران شلوار کو کافی حد تک نیچے کر لیا تھا ۔ میرے ایڑھی پر نرم گرم ساتھ ماس لگا پیٹ کا بالکل نچلا حصہ ۔ انہوں نے چہرے سے قمیض کا پلو ہٹایا تو میں نے دیکھا ان کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکان تھی ۔
انہوں نے جب قمیض کا پلو چھوڑا تو وہ میرے پاوں کے اوپر ہی گرا ۔ جس سے میرا پاوں چھپ گیا تھا ۔
میں نے اب نظریں ٹی وی کی جانب کر لیں ۔ اور پاوں کو ویسے ہی تھوڑا سا ترچھا موڑ لیا جیسے پہلے تھا ۔
اب امی بھی فلم دیکھ رہیں تھی اور آہستہ آہستہ صوفے کی سائیڈ والی ٹیک کی طرف جھکنے لگیں ۔
فلم دیکھتے ہوئے مجھے ان کی چپل کی آواز آئی جو انہوں نے پاوں سے اتارری ۔اب وہ اپنی دونوں ٹانگوں کو صوفے کے اوپر دراز کر چکی تھیں ۔اور رخ ٹی وی کی جانب تھا ۔ لیکن میری مخالف سائیڈ پر ۔ یا یوں سمجھ لیں کہ صوفے کے ایک بازو سے میں ٹیک لگا ٹی وی دیکھ رہا تھا دوسری بازو پر امی ۔
میرا پاوں وہیں تھا بس اب ایڑھی کے بجائے پاوں کا پنچہ انکی پھدی کی طرف تھا ۔
اب حرکت کی باری میری تھی ۔ میں نے پہلے پاوں کو انکے پیٹ کی جانب اوپر کیا ۔ بلکل سلو موشن میں ۔ پھر واپس نیچے لانے لگا ۔
اس موقع پر اقبال کا شعر یاد آیا ۔ بے خودی میں صنم – اٹھ گئے جو قدم
میری خوش قسمتی تھی کہ میری ایڑھی کے کنارے پر امی کی شلوار کا لاسٹک آگیا ۔ اب جوں جوں میں پاوں نیچے کرتا توں توں ان کی شلوار بھی نیچے ہوتی جاتی ۔
امی کو بھی میری قسمت پر ناز آنے لگا تھا ۔ اس لیے زیر لب مسکرا رہی تھیں ۔
جونہی پاوں نیچے آیا اب میرا پنچہ ان پھدی کے بالوں سے نیچے سیدھا نرم ملائم پھدی پر آگیا تھا ۔ امی کے جسم میں بھی جھٹکا لگا ۔
ایک بھٹی تھی جو جل رہی تھی اس کی تپش میں نے اپنے پاوں کے انگوٹھے اور پنچے کی کچھ انگلیوں پر محسوس کی لی تھی ۔
میں کچھ کچھ دیر بعد پاوں کے انگوٹھے کو حرکت دیتا ۔ مجھے انکی پھدی صاف محسوس ہو رہی تھی ۔ دل تو تھا کہ پاوں کا انگوٹھا اندر ڈال دوں ۔ امی نے میری دائیں ٹانگ جو انکی پھدی پر تھی اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں جکڑ لیا تھا ۔ لیکن سختی سے نہیں ۔ ان کو اب لزت آرہی تھی ۔ اوپر سے فلم میں پھر گرم سین آچکا تھا ۔ لڑکا اب اس عورت کو گھوڑی بنا کر چود رہا تھا ۔ فلم میں پراوئیویٹ پارٹ تو نہیں دکھا رہے تھے البتہ سیکس پوزیشن صحیح سے سمجھا رہے تھے ۔
دو چار منٹ بعد امی نے اچانک میرے پاوں کو جکڑ لیا مجھے صاف محسوس ہوا کہ امی نے ٹھیک ٹھاک جھٹکا کھایا کیونکہ میرے پاوں کا انگوٹھا لگاتار ان کی پھدی کے مخصوص دانے (جس کو clitoris یا clits بھی کہتے ہیں ) پر ہی تھا ۔ اور جیسے خارش کرتے ہیں ویسے ہی پاوں کے انگوٹھے سے انکی پھدی پر خارش کر رہا تھا لیکن آہستہ آہستہ ۔ کچھ ہی سیکنڈ بعد مجھے پاوں کے انگوٹھے اور پنچے پر پانی محسوس ہوا ۔ یعنی امی فارغ ہو چکی ہیں ۔
میں خود کو دنیا کا خوش نصیب بیٹا محسوس کرنے لگا تھا ۔ کیونکہ امی کے چہرے پر اطمینان اور سکون تھا ۔
فلم ختم ہونے سے پہلے ہی امی نے کہا کامی بیٹا تمھاری چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے پی لو ۔
میں نے کہا کوئی بات نہیں امی میں پھر گرم کر لوں گا ۔
امی کو بھی پتا تھا میں چائے کی بات نہیں کر رہا ۔
امی کا دھیان ٹی وی پر ہی تھا اور کہنے لگیں ہاں کیوں نہیں جب مرضی جب تم چاہو ۔...
اور پھر وہ اٹھ گئیں میں نے بھی اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں ۔
میں آج بہت خوش تھا جیسے پاکستانی عوام 27 فروری کو دو بھارتی جہاز گرا کر خوش ہوئی تھی ۔
چس آگئی تھی....
0 Comments