بہن کا شوہر قسط نمبر 9

بہن کا شوہر قسط نمبر 9

اگلے دن دن امی کو اپنا سوٹ سلائی کرنا تھا ۔ پہلے وہ اپنی قمیض درزی کو دے آتیں وہ اس سائز کا سلائی کر دیتا ۔ لیکن جب مشن معصوم سے کامی پر ظلم ہو ۔ تب ایسا نہیں کیا انہوں نے۔
مجھے کہنے لگیں کہ وزن کم ہونے سے میرے سوٹ سب کھلے ہو چکے ہیں ۔ تم میرا فریش ٹھیک ٹھیک ناپ لو ۔
میں نے اینچی ٹیپ پکڑی اور درزیوں کی طرح پنسل کو اپنے کان میں اڑایا ۔
امی کے کندھے اینچی ٹیپ رکھا اور قمیض کی لمبائی دیکھنی تھی ۔ میں اینچی ٹیپ کے اوپر ہی آہستگی کے ساتھ ہاتھ پھیرتا ہوا نیچے جانے لگا ۔ میرے ہاتھ کے نیچے امی کے ممے آئے اور پھر پیٹ پھر ران اور پھر گھٹنے ۔
وہاں پر سائز نوٹ کیا اور صفحے پر لکھ دیا ۔ ...
پھربازو کھولے اور سائیڈیں ماپی ۔ پھر میں انکے بالکل پیچھے کھڑا ہو گیا ۔ اس سے پہلے کے سائز لیتا امی نے کہا مجھے کچن سے چھوٹا سٹول لا دو ۔( فرش پر بیٹھتے وقت جو استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ پیڑی کہتے ہیں کچھ بینڈا ) انکا قد مجھ سے کافی چھوٹا تھا ۔
میں تو ویسے بھی ناپ لے سکتا تھا پھر سٹول کی کیا ضرور ت تھی ۔
یہی میں امی کو کہہ بیٹھا ۔
امی نے ہلکے سے غصے سے پیارا سا ایک لفظ کہا ۔
" گدھا "
میں جونہی ان سے جڑ کر کھڑا ہوا تو مجھے امی کا چھوٹا سا لفظ بہت بڑا لگنے لگا ۔ میں واقعی گدھا بلکہ کھوتے کا پتر تھا ۔
امی ہپس مجھے اپنے رانوں پر محسوس ہو رہی تھیں ۔ اور میرا لن ان کی کمر کے درمیان میں تھا ۔ امی کا دل تھا کچن والے سٹول پر چڑھتی تو میرا لن اور انکی ہپس اپس میں برابر برابر آجاتیں ۔
لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔
مجھ سے کافی بڑا بلنڈر ہوا تھا ۔ میں سٹول لینے جانا لگا تو امی واقعی غصے میں تھیں اور کہا بس ایسے ہی لو ناپ ۔ مجھے اب اپنے آپ پر بہت غصہ تھا ۔ بارحال ناپ پورا کیا اور دو چار بار مموں کو ہاتھ لگایا ۔ اور سب کچھ پیپر پہ لکھتا گیا ۔ ابے مموں کو ہاتھ لگانا نہیں بلکہ انکی قمیض کا ناپ لکھا پیپر پہ ۔
اگلی صبح میں مریو کو سکول چھوڑ کر یونیورسٹی گیا ۔ باقی دن کی وہی روٹین البتہ شام کو لنگوٹ یا دھوتی سی پہن کر گھر کے پچھلے حصے گیا ۔ بینچ پر ورزش کی ڈنٹ پیلے اور پھر سرسوں کے تیل سے پورے جسم کی مالش کی ۔
امی بیک ڈور سے لان میں آگئیں ۔ کہنے لگیں دیکھا یہ کتنا کمفرٹ ہے ۔
واقعی امی ۔میں نے جواب دیا ۔۔۔۔
اس سے اگلے دن اتوار تھا ۔ مریو باہر گلی میں کھیلنے گئی اور میں اپنی مالش کر رہا تھا ۔ دروازے سے امی داخل ہوئیں تو دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔
ٹائٹ سی قمیض اور نیچے دھوتی پہن رکھی تھی ۔ جو کہ انکی گوری لیکن بھری بھری پنڈلیوں تک اونچی تھی ۔
افلاطون نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ۔ انسان کی آزمائش مشکل حالات سے نہیں ہوتی بلکہ اصل آزمائش لن کی ہوتی ہے ۔ جتنا قابو رہے اتنا فائدہ ہے ۔
آج میں بھی زیادہ چپک رہا تھا دھوتی میں لن تو کھڑا ہو گیا ۔ بلکہ ایک بار تو سامنے سے دھوتی کا پلو ہٹ گیا اور امی با نفس نفیس اس کو دیکھا تھا ۔
پانچ سات منٹ انکے بازوں اور ٹانگوں کی ورزش کرواتا رہا ۔
دو تین بھی بہت ہی گہری ٹچنگ ہوئی ۔
پھر میں انکے برابر ہی فرش پر بیٹھا تھا ۔ پہلے وہ سیدھی پڑی تھیں ۔ پھر الٹی فرش پر لیٹ گئیں ۔
اپنی ٹانگوں کو بینڈ کرتی جا رہی تھیں اور سارا وزن کہنی سے ہاتھوں تک بازوں پر اور پیچھے والا وزن ٹانگوں کے گھٹنوں سے پنچوں تک ۔ شارٹ یہ کہ گھوڑی والی پوزیشن تھی ۔
میں انکے برابر میں تھا میں جان بوجھ کر انکے پیچھے ہوتا گیا یعنی ہپس یا گانڈ والی سائیڈ ۔
میں بھی اپنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا اور پیچھے سے انکی ہپس سے اپنے لن کو ٹکرا دیا ۔
میری دھوتی تو کھلی کھلی تھی لیکن امی کی ہپس بھاری تھی اسلیے اس جگہ سے دھوتی کافی ٹائٹ تھئ ۔
یہ دیکھ کر مجھے بہت ہی غصہ آیا ۔ لن آگے جا ہی نہیں سکتا تھا ٹائٹ دھوتی تھی ۔
امی بھی شاید میری بے بسی کا اندازہ ہو گیا ۔ ماں تو بچوں پر سب کچھ نثار کرنے والی ہوتی ہیں
امی نے کہا کامی میں گھٹنے اٹھاتی ہوں تم نیچے سے کپڑا ( دھوتی ) نکال دینا تاکہ میں ایزی ہو جاوں ۔
میری تو دس لاکھ والی لاٹری لگ گئی ۔ جونہی امی نے ہپس کو اٹھایا گھٹنے ہوا میں اٹھے ۔ میں نے نیچے سے کپڑا اوپر کی طرف فولڈ کیا یہاں تک کے انکی رانیں آدھی ننگی ہو چکی تھیں امی نے واپس گھٹنے زمین پر رکھ دیے ۔
میں اب واپس اپنی پچھلی پوزیشن پر آیا اور دونوں ہاتھ انکی ہپس پر رکھے ۔ جیسے کسی کو گھوڑی بنا کر چودتے وقت اسکی ہپس کو پکڑتے ہیں ۔بالکل ویسے ہی میں نے انکی ہپس کو پکڑ رکھا تھا ۔ لن کو ہپس سے ٹکرانا نہیں بھولا ۔ میں بڑا تیز ہوں ۔
اب کوئی اوپر سے دیکھتا تو یہی کہتا کہ کامی اپنی امی کی گانڈ نہیں بجا رہا تھا بلکہ ماں بیٹے کی لازوال محبت لکھی جا رہی تھی ۔
اب جونہی میرا لن انکے ہپس سے ٹکرایا تو امی اگلے حصے یعنی بازووں والی سائیڈ سے مزید جھک گئیں ۔ جس کی وجہ سے ہپس مزید باہر نکل آئی اور مزید پھیل گئی ۔
اب اس سیچوایشن سے فائدہ نا اٹھا بے غیرتی ہوتی ۔
میں نے پیار سے اور معصومیت سے امی سے پوچھا ۔ جوکہ میں واقعی معصوم ہوں
امی تھوڑا تھوڑا ڈالوں تاکہ مزید ورزش ہو وزن ۔
وزن جان بوجھ کر میں نے آخر میں آہستہ سے کہا ۔ تھوڑا تھوڑا ڈالوں پر کافی زور دیا ۔
امی نے جواب دیا ہاں ڈالو ۔
یہ میرے لیے کھلا اشارہ تھا ۔ کیونکہ انہوں نے جواب میں وزن کا بالکل نہیں کہا ۔
میں امی کی دھوتی کو رانوں سے اٹھانا شروع کیا تو ننگی گوری بھری بھری رانوں چاندی کی طرح دمک رہیں تھیں ہپس تک میں دھوتی اٹھا دی تھی ۔
مجھے اب انکی گوری چٹی آدھی ہپس نظر آرہی تھی اور ایسا زندگی میں پہلے بار ہوا تھا ۔
میں نے اپنے دھوتی کی سامنے والی لکیر سے آٹھ انچ کا لن نکلا جیسے پینٹ کی زپ سے لن نکالتے ہیں اور انکی ہپس کے درمیان ڈال دیا ۔
انکی ہیپس تو کافی حد تک پہلے ہی کھلی ہوئی تھیں لن جونہی انکو نرم و ملائم جلد سے ٹکرایا تو انکے جسم نے جھرجھری لی ۔
میں لن کو تھوڑا نیچے ہی رکھا تاکہ کسی سوراخ میں نہ گھس جائے ۔ بری بات ۔ ماں کے ساتھ بیغرتی نہیں ۔
آدھا لن ہیپس میں پھنسا کر

Post a Comment

1 Comments